New Urdu Shayari 2020, Latest Urdu Shayari Images, Zakhmi Urdu Shayari Images, Kalim Ajiz Ki Shayari
دوستوں آج کے اس پوسٹ میں ہم ڈاکٹر کلیم عاجز صاحب کی شاعری کے بارے میں جانیں گے اور ان کے چند اشعار سے محظوظ ہونگے اگر پوسٹ اچھا لگے تو کامینٹ باکس میں ہمیں ضرور بتائیں۔
تاریخ میں ایسی مثالیں بے شمار ملتی ہیں کہ شعراء نے اپنی جادو بیانی سے لوگوں کے دلوں پر فتح نمایا حاصل کی ہے۔ بعض اوقات شاعر کا کلام جمہور کے دل پر ایسا تسلط کرتا ہے کہ شاعر کی ہر ایک چیز یہاں تک کہ اس کی ایک عیب بھی خلقت کی نظر میں مستحسن معلوم ہونے لگتے ہیں اور لوگ اس بات میں کوشش کرتے ہیں کہ آپ بھی ان عیبوں سے متصف ہو کر دکھائیں۔ اس لئے شعر کی تاثیر کا کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا۔ سامعین کا اکثر اس سے حزن یا نشاط یا جوش یا افسردگی کم زیادہ ضرور پیدا ہوتی ہے۔ انہیں شاعروں کی فہرست کے ایک سخن ور شاعر ڈاکٹر کلیم عاجز صاحب ہیں جن کی شاعری درد اور حزن میں کمال کو پہنچی ہوئی ہے آج کل شعر و سخن بہت سوں کے لیے تفریح قلب و ذہن کا مشغلہ ہے اور بہتوں کے لئے کسب معاش کا ذریعہ ہے لیکن کلیم عاجز صاحب کا کلام درد دل کا ترجمان ہے ان کی شاعری میں انسانیت کا غم ہے، دکھ ہے، درد ہے، محبت ہے، سوز دروں ہے، کسک، چوٹ اور اس سے بجنے والا ساز ہے، نہ تصنع ہے، نہ عشق کی مصنوعی دیوانگی، کلیم عاجز صاحب جب نغمہ سرا ہوتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے کسی بسیط و عریض ویرانے میں کوئی زخمی فرشتہ فریاد کر رہاہے اور با آواز بلند یہ شعر پڑھ رہا ہے کہ
میری شاعری میں نہ رقص جام نہ مۓ کی رنگ نشانیاں
وہی دکھ بھروں کی حکایتیں وہی دل جلوں کی کہانیاں
یہ جو آہ و نالہ و درد ہیں کسی بےوفا کی نشانیاں
یہی میرے دن کے رفیق ہیں یہی میری رات کی رانیاں
کبھی آنسوؤں کو سکھا گئیں میرے سوز دل کی حرارتیں
کبھی دل کی ناؤ ڈبو گئیں میرے آنسوؤں کی روانیاں
ان کی غزل میں دکھ بھرو کی حکایتیں اور دل جلوں کی کہانیاں ہیں۔ اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کی غزلوں میں بے جوڑ باتیں نہ آنے پائیں۔ کلیم صاحب بات میں سلیقہ مندی پسند فرماتے ہیں اسی لئے ان کے جذبات و خیالات ایک ہی نہج پر بہتے ہیں اسلۓ ان کی شاعری میں تسلسل پیدا ہو جاتا ہے جس کا اندازہ اس شاعری سے لگایا جا سکتا ہے۔
تجھے سنگ دل یہ پتہ ہے کیا کہ دکھے دلوں کی صدا ہے کیا
کبھی چوٹ تو نے بھی کھائی ہے کبھی تیرا دل بھی دکھا ہے کیا؟
تو رئیس شہر ستمگراں میں گداۓ کوچئہ عاشقاں
تو امیر ہے تو بتا مجھے میں غریب ہوں تو برا ہے کیا؟
تو جفا میں مست ہے روز و شب میں کفن بدوش غزل بلب
تیرے رعب حسن سے چپ ہیں سب میں بھی چپ رہوں تو مزہ ہے کیا؟
یہ کہاں سے آئی ہے سرخرو ہے ہر ایک جھونکا لہو لہو
کٹی جس میں گردن آرزو یہ اسی چمن کی ہوا ہے کیا؟
بڑی طلب تھی بڑا انتظار دیکھو تو
بہار لائی ہے کیسی بہار دیکھو تو
یہ کیا ہوا کہ سلامت نہیں کوئی دامن
چمن میں پھول کھلے ہیں کہ خار دیکھو تو
لہو دلوں کا چراغ میں کل بھی جلتا تھا
اور آج بھی ہے وہی کاروبار دیکھو تو
کلیم عاجز صاحب کے تغزل کا مخصوص آرٹ ہے جو سینکڑوں شعراء کے ہزاروں اشعار کے ہجوم میں جانا اور پہچانا جا سکتا ہے ان کی غزلوں میں ان کے عہد کے سماجی اور سیاسی تصورات بڑےسلیقہ فن کے ساتھ اپنے کو نمایاں کرتے ہیں انہوں نے بلا شبہ غم زمانہ ہو یا غم روزگار، غم وطن ہو یا غم کائنات سب کو ایسا نازک شبنمی پیرایئہ لطیف دیا ہے کہ بے ساختہ ان کی یہ شاعری یاد آتی ہے کہ
حقیقتوں کا جلال دیں گے صداقتوں کا کمال دیں گے
تجھے بھی ہم اۓ غم زمانہ غزل کے سانچے میں ڈھال دیں گے
نہ بندۂ عقل و ہوش دیں گے نہ اہل فکر و خیال دیں گے
تمہاری زلفوں کو جو درازی تمہارے آشفتہ حال دیں گے
یہ عقل والے اسی طرح سے ہمیں فریب کمال دیں گے
جنوں کے دامن سے پھول چن کر خرد کے دامن میں ڈال دیں گے
کلیم عاجزصاحب کی داستان زندگی بہت ہی لمبی ہے جسے چند صفحات میں سمیٹنا ممکن نہیں پھر بھی بندے نے جو باتیں ان کے بارے میں پڑھی ہے اور ان کے اشعار کی جھولی سے چٹکی بھر جواہرات کو کاغذ پر بکھیرا ہے آپ اس سے یہ ضرور اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کلیم عاجز صاحب کیسی صاف ستھری غزل کہنے والے تھے۔
اخیر میں کلیم عاجز صاحب کے چند اشعار سنتے جائیں
سلگنا اور شے ہے جل کے مر جانے سے کیا ہوگا
جو ہم سے ہو رہا ہے کام پروانے سے کیا ہوگا
مناسب ہے سمیٹو دامن دست دعا عاجز
زباں ہی بے اثر ہے ہاتھ پھیلانے سے کیا ہوگا
جدا جب تک تیری زلفوں سے پیچ و خم نہیں ہوں گے
ستم دنیا میں بڑھتے ہی رہیں گے کم نہیں ہوں گے
اگر بڑھتا رہا یوں ہی یہ سودائے ستمگاری
تمہیں رسوا سر بازار ہوگے ہم نہیں ہوں گے
ساون کی گھٹا آگئی میخانے کے نزدیک
ہونٹوں سے مگر فاصلئہ جام بہت ہے
ہنسنے کا تو موقع نہیں آ بیٹھ کے رو لیں
یہ فرصت غم بھی دل ناکام بہت ہے
ہمیں اچھا ہے بن جائیں سراپا سرگزشت اپنی
وگرنہ لوگ جو چاہیں گے افسانہ بنا دیں گے
نہ جانے کتنے دل بن جائیں گے اک دل کے ٹکڑے سے
وہ توڑیں آئینہ ہم آئینہ خانہ بنا دیں گے
تمہاری طرح زلفوں میں شکن ڈالے نہیں ہیں ہم
کہیں گے بات سیدھی پیچ و خم والے نہیں ہیں ہم
گلوں کی طرح ہم نے عمر کانٹوں میں بسر کی ہے
ہیں اہل ناز لیکن ناز کے پالے نہیں ہیں ہم